قربانی کے سلسلے میں
امت کا تعامل
حقائق، مسلّمات اور غلط فہمیاں
(۲)
از: مفتی رشید احمد فریدی، مدرسہ مفتاح العلوم
تراج، سورت، گجرات
(۶) تعدد وتکرار کی بحث
راقم کا مقالہ تحقیق
الکلام فی بیان السبب لوجوب الاحکام سے تعدد وتکرار وجوب کی بحث
یہاں نقل کی جاتی ہے۔
احناف کے نزدیک
یہ اصول طے شدہ ہے ان الامر
لا یقتضی التکرار ولا یحتملہ کہ امر بالذات نہ
مقتضی تکرار ہے اورنہ محتمل تکرار۔ دوسری طرف خطاب الٰہی
جس پر صیغہٴ امر دال ہے وہ موجود علی الدوام ہے اور بندوں کے
احساس سے غائب وپوشیدہ ہے پس ضروری ہوا کہ عبادت بدنی ومالی
کی ادائیگی کو کسی ایسے امر کے ساتھ مربوط کیا
جائے جس میں تکرار پایا جاتا ہو تاکہ اس کے تکرار سے یہ سمجھا
جائے کہ خطاب الٰہی گویا از سر نو بندوں کی طرف متوجہ
ہورہا ہے۔
وما تکرر
من العبادات فباسبابہا لا بالاوامر. جواب سوال یرد علینا: وہو ان
الامر اذا لم یقتض التکرار ولم یحتملہ فبأی وجہٍ تتکرر العبادات
مثل الصلاة والصیام وغیر ذلک، فیقول ان ما تکرر من العبادات لیس
بالاوامر بل بالاسباب لان تکرار السبب یدل علی تکرار المسبب
(نورالانوار:۳۵).
قولہ لیس
بالاوامر والا لاستغرقت العبادات الاوقات کلہا لدوام الامر (حاشیہ)
چنانچہ شارعِ حکیم
کے کلامِ اضافی سے استدلال کرتے ہوئے ائمہ مجتہدین نے ملک نصاب کو
وجوب زکوٰة کیلئے اور رأس
موصوف بالولایة والموٴنة کو وجوبِ صدقہ کیلئے سبب
قرار دیا؛ کیونکہ ملکیت میں باعتبار نصاب کے اور موٴنت
و ولایت میں باعتبار رأس کے تعدد وتکرار پایا جاتا ہے اور جب
”ملک نصاب“ اور ”رأس یمونہ ویلی علیہ“ کو سبب قرار دیدیا
تو وقت وجوبِ اداء کو شرط کہا گیا (اگرچہ وقت کے تکرار سے حکم میں
تکرار بھی مسلّم ہے مگر دو چیزوں کا ایک نام تجویزکرنا غیر
مناسب معلوم ہوا) اور نماز، روزہ اور قربانی میں اوقات وایام
مخصوصہ کو سبب قرار دیا کہ وقت میں تکرار کا ہونا مشاہد ویقینی
ہے۔
اور حج زندگی
میں فقط ایک مرتبہ ہے اس لئے حج کی اضافت بیت اللہ کی
طرف کی گئی جو غیر متکرر ہے اور استطاعت (قدرت علی الزاد
والراحلہ) کو باوجودیکہ وجوبِ حج اس پر موقوف ہے یعنی نفس وجوب
کی شرط ہے اور وجوب ہی چونکہ مفضی الی الاداء ہوتا ہے اس
اعتبار سے استطاعت کو سبب کہا جاسکتا ہے مگر چونکہ اس میں تکرار کا بھی
تحقق ہوتا ہے اس لئے سبب (بالمعنی الاصطلاحی) قرار نہیں دیاگیا۔
وفی
الذخیرة: وقد رتب اللّٰہ سبحانہ وتعالٰی وجوب الحج علی
الاستطاعة وترتیب الحکم علی الوصف یشعر بسببیّة ذلک الوصف
لذلک الحکم، کقولنا: زنی فرجم، وسہا فسجد، وسرق فقطع، فتکون الاستطاعة سببا
لوجوبہ
(حاشیہ چلپی علی التبیین: ۲/۲۳۶) والمال لیس
بسبب فیہ ولکنہ معتبر لیتیسر بہ الوصول الی مواضع اداء
ارکانہ
(مبسوط، کتاب الحج)
غرض جس شئی
کو سبب قرار دیا جارہا ہے اس میں تعدد وتکرار کا خاص معنی ملحوظ
ہے اسی وجہ سے واجبات کی نسبت اسباب کی طرف ہوا کرتی ہے فالواجبات تضاف الی اسبابہا
(مبسوط:۲/۴) قطع نظر اس سے کہ
وہ سبب فی معنی العلة ہے یا سبب فی معنی الشرط ۔
اب فقہاء کا کلام
ملاحظہ فرمائیے:
(۱) اعلم ان
الصلاة فرضت لاوقاتہا، قال اللّٰہ تعالٰی: اقم الصلوٰة
لدلوک الشمس ولہذا تکرر وجوبہا بتکرار الوقت وتودّی فی مواقیتہا
(مبسوط:۱/۱۴۱).
(۲) وسبب
الاوّل الشہر ولہذا یضاف الیہ ویتکرر بتکررہ (ہدایہ:۱/۲۱۱ کتاب الصوم)
(۳) فشہود
جزء منہ سبب لکلہ ثم کل یوم سبب وجوب ادائہ، غایة الامر انہ تکرر سبب
وجوب صوم الیوم باعتبار خصوصہ کما فی الفتح (شامی:۳/۳۳۳)
(۴) ولان
سببہ البیت وانہ لا یتعدد فلا یتکرر الوجوب (ہدایہ:
۲۳۲)
(۵) وقد علم
ان السبب اذا لم یتکرر لا یتکرر المسبب وانما کان سببہ البیت
لاضافتہ، الیہ یقال حج البیت، والاضافة دلیل السببیة (بنایہ:۴/۶)
(۶) وسبب
وجوب الحج ما اشار الیہ اللّٰہ تعالٰی فی قولہ وللّٰہ
علی الناس حج البیت فالواجبات تضاف الی اسبابہا ولہذا لا یجب
فی العمر الا مرة واحدة لان سببہ وہو البیت غیر متکرر، والاصل فیہ
حدیث الاقرع بن حابس.... والوقت فیہ شرط الاداء ولیس بسبب ولہذا
لایتکرر بتکرر الوقت (مبسوط:۲/۴)
(۷) الاضافة
ای اضافة الصدقة الی الفطر باعتبار انہ وقتہ ای وقت الوجوب
فکانت اضافتہ مجازیة وہذا یتعدد بتعدد الرأس مع اتحاد الیوم ای
لاجل تعدد الصدقة بتعدد الرأس ان لم یتعدد الفطر فعلم ان الرأس ہو السبب فی
الیوم
(بنایہ: ۳/۵۷۲)
(۸)... ولانہ یتضاعف بتضاعف الروٴس فعلم ان
السبب ہو الرأس وانما یعمل فی وقت مخصوص وہو وقت الفطر ولہذا یضاف
الیہ فیقال صدقة الفطر والاضافة فی الاصل وان کان الی
السبب فقد یضاف الی الشرط مجازا فان الاضافة تحتمل الاستعارة فاما
التضاعف بتضاعف الروٴس لایحتمل الاستعمارة (مبسوط:۲/۱۰۱)
(۹) النصاب
انما یکون سببا باعتبار صفة النماء فان الواجب جزء من فضل المال قال اللہ
تعالٰی: یسئلونک ماذا ینفقون فل العفو ای الفضل،
فصار السبب النصاب النامی ولہذا یضاف الی النصاب والی
السائمة یقال زکاة السائمة وزکوٰة التجارة والدلیل علیہ
ان الواجب یتضاعف بتضاعف النصاب فان قیل الزکوٰة تتکرر فی
النصاب الواحد بتکرر الحول ثم الحول شرط ولیس بسبب الخ (دیکھئے
مبسوط:۲/۱۵۰)
پس اگر نصاب اور
رأس کے بجائے وقت کو سبب قرار دیاجاتا تو تکرارِ وقت سے وجوب ضرور مکرر ہوتا
لیکن متعدد وجوب نہ ہوتا۔ اوراگرایامِ حج سے وجوبِ اداء کا تعلق
ہوتاتو ہر سال حج کرنا ضروری ہوجاتا جیسے قربانی۔
اما حدیث
الاقرع بن حابس رضى الله تعالى عنه فہو ماروی ابو ہریرة رضى الله
تعالى عنه ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال ایہا
الناس قد فرض اللّٰہ علیکم الحج فحجوا فقال الاقرع بن حابس رضى الله تعالى عنه أکلّ عام یا رسول اللّٰہ فسکت حتی
قالہا ثلثا فقال لو قلتُ نعم لوجب ولما استطعتم. والمنعی لو قلت ”نعم“ لتقرر
الوجوب کل عام علی ما ہو المستفاد من الامر قلنا لا بل معناہ لصار الوقت
سببا لانہ علیہ الصلاة والسلام کان صاحب الشرع والیہ نصب الشرائع (تلویح:۴۲۱)
اور جب وقت کو سبب
وجوب قرار دیا جاتا تو وجوب اداء مختص بالوقت ہوکر متکرر ہوتا۔
قربانی کے
سبب وجوب کے بارے میں فقہاء کا اختلاف اور بالآخر وقت کی سببیت
پر سب کا متفق ہونا سببیت کے خاص معنی کے لحاظ سے ہے، اور اِس معنی
کے اعتبار سے وجوبِ اضحیہ کا سبب نہ غنا ویسار ہے اورنہ ہی رأس یمونہ
ویلی علیہ ہے۔ ورنہ متعدد قربانی واجب ہوتی جیسے
زکوٰة وصدقة الفطر، البتہ ایام نحر کی آمد سے وجوب مکرر ہوتا
رہتا ہے اس لئے وجوب اداء یعنی وجوب اضحیہ کا سبب وقت کو قرار دیاگیا
ہے۔
ان سبب
وجوب الاضحیة الوقت وہو ایام النحر والغنٰی شرط الوجوب
.... الا یری انہ لایقال اضحیة المال ولا مال الاضحیة
فلا یکون المال سببا (تکلمة فتح القدیر)
ولان سبب
الوجوب ہناک رأس یمونہ ویلی علیہ وقد وجد فی الولد
الصغیر ولیس السبب الرأس ہہنا الا یری انہ یجب
بدونہ وکذا لایجب بسبب العبد (بدائع: ۵/۶۵ کتاب الاضحیة)
واعلم ان
عبارة البعض تفید ترجیح کون السبب ہو الرأس کصاحب الکافی حیث
قال وسببہا الرأس کما فی صدقة الفطر وقیل: الیوم، وعبارة الدر
تفید عکس ذلک. ومنہم من جزم بان السبب ہو الیوم قال للاضافة لقولہم یوم
الاضحٰی ولتکررہا بتکررہ (فتح المعین علی شرح
الکنز لملا مسکین: ۳/۳۷۶)
(۱۰) ثم ہہنا
تکرر وجوب الاضحیة بتکرر الوقت ظاہر (تکملہ فتح القدیر:
۹/۵۰۶)
یہی
وجہ ہے کہ مولانا عبدالحئی لکھنوی رحمة الله عليه نے وجوب صدقة الفطر
میں رأس کیلئے سبب کا لفظ استعمال کیا اور قربانی میں
مال کیلئے نہیں کیا۔
قلنا سبب
وجوب الفطرة رأس ای نفس یمونہ ای یتولیہ ویکفلہ
فیجب الصدقة علی الرأس ... ولکن الاضحیة علی المال فان لم
یکن لہ مال لایجب علیہ فافہم (عمدة الرعایہ:۴/۳۸)
لیکن قربانی
کے وجوب فی الذمہ کی علت بہرحال غنا ویسار ہے اس میں
فقہاء کا کوئی اختلاف نہیں ہے (کما ستعلم ان شاء اللّٰہ) اس
لحاظ سے اگر کسی فقیہ کے کلام میں بسبب الغنا کا لفظ آیا
ہے تو وہ سبب فی معنی العلة ہے۔ (دیکھئے: تبیین
الحقائق:۶/۴۷۸).
الحاصل وقت کو سبب
قرار دینا تکرارِ وجوبِ اداء کیلئے ہے۔
(۷) تواتر وتعامل کے خلاف دئیے
گئے فتاویٰ میں تعارضات
وقت مخصوص کی
آمد سے نفس وجوب کے ثبوت کی بنیاد پر دئیے گئے فتاویٰ
میں اصولی وفقہی متعدد غلطیوں کے علاوہ جن کی طر ف
راقم نے اپنے مضمون ”تعقب الفرید علی تخصیص الوجوب بصبح العید“
میں نشان دہی کی ہے یہاں آپ کو ان فتاویٰ کے
درمیان تعارضات دکھائے جاتے ہیں۔ توارث وتعامل کے معارض ہونے کے
ساتھ فتاویٰ کا آپس میں متعارض ہونا اہل علم خود فیصلہ کریں
یہ کس بات کی علامت ہے۔
پہلے ان فتاویٰ
کی بنیادی عبارتیں پیش کی جاتی ہیں
پھر تعارضات ملاحظہ فرمائیں گے۔
(الف) دارالعلوم
کراچی کے مفتی عصمت اللہ صاحب کے فتویٰ کی بنیادی
عبارت:
”الجواب“ قربانی
کے نفس وجوب کا سبب وقت ہے جو کہ یوم النحر کے طلوع صبح صادق سے شروع ہوکر
بارہویں تاریخ کے غروب آفتاب تک ہے اور غِنٰی یعنی
مالک نصاب ہونا یہ شرط وجوب ہے۔“....
”اگر یوم
النحر ہوچکاہے تو نفس وجوب ہوگیا۔ اب دیگر شرائط کے پائے جانے کی
صورت میں خود قربانی کرے یا اس کی اجازت سے دوسرا کوئی
آدمی کرے دونوں صورتوں میں یہ قربانی شرعاً اداء ہوجائے گی۔“
قال العبد: حاصل یہ
کہ نفس وجوب کا سبب پورا وقت ہے اور غِنٰی کو شرط وجوب یعنی
صرف وجوب اداء کی شرط مانا گیا، پھر آگے چل کر وقت خاص کے جزء اوّل کو
متعین طریقہ پر سبب مانا ”اگر یوم النحر ہوچکا یعنی
صبح صادق ہوگئی تو نفس وجوب ہوگیا۔“ بہرحال بارہویں کے
غروب کے بعد نفس وجوب نہیں ہے۔
(ب) مفتی
عمر فاروق صاحب لندن کے فتویٰ کی بنیادی عبارت:
ایک بنیادی
مسئلہ یہ ہے کہ مالدار شخص اپنی قربانی وکیل کے معرفت
کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ مالدار پر قربانی واجب ہوچکی ہو اور
مالدار پر قربانی دسویں ذی الحجہ کی صبح صادق سے واجب ہوتی
ہے۔ اب جو مالدار شخص جہاں رہتا ہو وہاں قربانی کا وقت شروع نہ ہوا ہو
یعنی وہاں دسویں تاریخ کی صبح صادق نہ ہوئی
ہوتو چاہے وکیل جہاں رہتا ہے وہاں دسویں تاریخ کی صبح
صادق ہوچکی ہو وکیل کے لئے اپنے مقام پر اصل مالک کی طرف سے اس
کی قربانی کرنی صحیح نہیں...
دوسرا مسئلہ یہ
ہے کہ کسی شخص کے ذمہ قربانی واجب ہونے کے بعد اس کی ادائیگی
جائز اور صحیح ہونے کے لئے جس جگہ پر قربانی کا جانور ہو وہاں قربانی
کا وقت شروع ہوجانے کے بعد باقی رہنا ضروری ہے چاہے اصل مالک (موکل)
کے مقام میں قربانی کا وقت ختم ہوگیاہو۔
قال العبد: حاصل یہ
کہ مالدار پر نفس وجوب یوم النحر کی صبح صادق سے ہوتی ہے یعنی
جزء اوّل متعین ہے اور نفس وجوب کے بعد اداء کے لئے وقت اضحیہ کا رہنا
ضروری ہے۔ چاہے من علیہ الاضحیہ کے یہاں وقت نہ ہو۔
(ج) حضرت مفتی
محمد تقی صاحب عثمانی مدظلہ العالی کی تائیدی
تحریر کی عبارت:
”نیز احتیاط
اس میں ہے کہ جب قربانی کسی ملک میں کی جائے تو جس
شخص کی طرف سے قربانی کی جارہی ہے اس کے ملک میں بھی
ایامِ اضحیہ ختم نہ ہوئے ہوں۔“
قال العبد: گویا
صحت اضحیہ کیلئے دونوں جگہ وقت اضحیہ کا رہنا بہتر ہے لیکن
اگر من علیہ الاضحیہ کے اعتبار سے وقت ختم ہوگیا اور مکان ذبح
اضحیہ میں وقت موجود ہے تب بھی قربانی ادا ہوجائے گی۔
(د) مفتی شبیر
احمد مرادآبادی کے فتویٰ کی بنیادی عبارت:
الجواب... لہٰذا
سب سے پہلے اول شرط یعنی دونوں جگہ قربانی کے زمانہ کا آنا لازم
ہے، پھر شرط ثانی یعنی زمانہٴ قربانی میں
مسلمان کا مالک نصاب ہونا۔ ان دونوں شرطوں کے ایک ساتھ پائے جانے کے
بعد تیسری کا مسئلہ سامنے آتا ہے۔....
اب اصل مسئلہ کا
جواب یہ ہے کہ مکان اضحیہ کا اعتبار کرنا اس وقت درست ہے کہ جب مالک
اضحیہ کے یہاں رط یعنی سبب وجوب جو کہ قربانی کے ایام
(دسویں ذی الحجہ سے لے کر بارہویں ذی الحجہ کا درمیانی
زمانہ) دونوں جگہ پایا جانا لازم ہے۔....
قال العبد: یعنی
من علیہ الاضحیہ (موکل) اور مکان اضحیہ دونوں جگہ وقت نحر کا
ہونا ضروری ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ مالک اضحیہ کے یہاں
وقت اگر شروع ہی نہیں ہوا یا وقت ختم ہوگیا تو خواہ مکان
اضحیہ میں وقت موجود ہو قربانی کا اعتبار نہیں ہوگا۔
(ھ) مفتی
اسماعیل صاحب بھڈکودروی کے جواب میں مفتی شبیر صاحب
کے خط کا ایک جملہ:
”نیز مقام
اضحیہ کا یوں بھی اعتبار ہوجاتا ہے کہ اگر مالک اور مضحی
کے یہاں بارہویں ذی الحجہ ہو اور جہاں قربانی کی
جارہی ہے وہاں تیرہویں ذی الحجہ ہوتو مقام اضحیہ کا
اعتبار کرکے قربانی کو صحیح قرار دیا جائے گا اس لئے کہ سبب
وجوب دونوں جگہ پایا جاچکا ہے۔
قال العبد: حاصل یہ
کہ من علیہ الاضحیہ کے یہاں وقت ہو او رمکان اضحیہ میں
وقت چاہے نہ ہو تب بھی قربانی صحیح ہوجائے گی۔
(و) حضرت مفتی
احمد صاحب خانپوری مدظلہ العالی کے فتوی کی عبارت:
فقہاء کرام نے
قربانی کا سبب وجوب ایام نحر یعنی قربانی کے دنوں
کا ہونا بتلایا ہے۔ وسببہا
الوقت وہو ایام النحر ..... اب اگر کوئی شخص جس پر قربانی
واجب ہوتی ہے جب تک قربانی کے دن نہیں آئیں گے وہاں تک اس
پر قربانی واجب نہیں ہوگی۔
... جس جانور کو
بطور قربانی ذبح کرکے واجب ادا کیا جارہا ہے اس کے لئے بھی شریعت
کی طرف سے ضروری قرار دیاگیا ہے کہ وہ جانور قربانی
کے دنوں اور وقت میں ذبح کیا جائے۔ اگر کوئی شخص اپنی
قربانی کا جانور ایسے دن اور وقت میں ذبح کررہا ہے جو قربانی
کے دن نہیں ہیں تو اس طرح ذبح کرنے سے قربانی ادا نہیں
ہوگی۔ .... اس پورے مسئلہ کا خلاصہ یہ ہے کہ قربانی کا
جانور ذبح کیا جارہا ہو اس وقت قربانی کا دن اور وقت ہونا ضروری
ہے۔ (۲۳/ذی قعدہ ۱۴۲۵ھ)
فتاویٰ کی ان عبارتوں کو مدنظر رکھئے
اور ملاحظہ فرمائیے
پہلا تعارض: ایک
طرف یہ لکھاجارہا ہے کہ ایامِ نحر از اول تا آخر یعنی
پورا وقت سبب وجوب ہے اور سبب وجوب سے بقولہم نفس وجوب مراد ہے تو مطلب یہ
ہوا کہ نفس وجوب پورے وقت میں کبھی بھی ہوسکتا ہے۔ جزء
اوّل متعین نہیں ہے۔ اور آگے پھر لکھتے ہیں کہ وقت کے جزء
اوّل سے وجوب ہوجاتا ہے یعنی نفس وجوب وقت کے جزء اوّل کے آنے کے ساتھ
خاص کرلیا ہے۔
دوسرا تعارض: ایک
جانب یہ لکھا گیا ہے کہ وقت سے قربانی واجب ہونے کے بعد قربانی
کا جانور ذبح کیا جارہا ہو اُس وقت قربانی کا دن اور وقت ہونا ضروری
ہے۔ چاہے اصل مالک کے مقام میں قربانی کا وقت ختم ہوگیا
ہو۔ گویا دونوں جگہ وقت کا رہنا ضروری نہیں۔ بلکہ
صرف مکان اضحیہ میں وقت کا رہنا ضروری ہے۔ دوسری
جانب مفتی شبیر صاحب کے فتوی کی یہ عبارت دیکھئے
”کہ دونوں جگہ قربانی کے ایام (دسویں ذی الحجہ سے لے کر
بارہویں کے درمیانی زمانہ) پایا جانا لازم ہے۔“ گویا
جس طرح من علیہ الاضحیہ کے یہاں وقت نہ ہوا ہو تو قربانی
درست نہیں اسی طرح اگر وقت من علیہ الاضحیہ کے یہاں
ختم ہوگیا ہوتو بھی مکان اضحیہ میں قربانی درست نہیں
ہے۔
تیسرا
تعارض:
ایک طرف تو یہ طے ہے کہ وجوب اضحیہ کے بعد ذبح اضحیہ کی
صحت کے لئے وقت اضحیہ کا ہونا ضروری ہے۔ جیساکہ ان فتاویٰ
میں بھی ہے مگر دوسری جانب مفتی شبیر احمد صاحب نے
مفتی اسماعیل صاحب بھڈکودروی کے استفسار کا جو جواب دیا
ہے اس میں ہے کہ من علیہ الاضحیہ کے یہاں ۱۲ویں ذی الحجہ ہو اور
مکان اضحیہ میں ۱۳ (تیرہویں)
ذی الحجہ ہو تب بھی قربانی درست ہوجائے گی۔ گویا
سبب وجوب کے بعد ذبح اضحیہ کے لئے وقت کا باقی رہنا ضروری نہیں
ہے۔ مفتی شبیر صاحب کا یہ قول شرع کے خلاف اور جدید
موقف کے قائلین کے بھی خلاف ہے حتی کہ خود ان کا فتوی جو
ندائے شاہی میں شائع ہوا ہے اس کے بھی خلاف ہورہا ہے۔
چوتھا تعارض: ایک
طرف ابتدائے وقت میں من علیہ الاضحیہ کا اعتبار کیا کہ
مکانِ اضحیہ میں باوجود وقت ہوجانے کے کہتے ہیں کہ جب تک من علیہ
الاضحیہ کے یہاں وقت نہ ہوجائے قربانی درست نہیں ہوگی۔
مگر دیکھئے
دوسری طرف انتہائے وقت میں مکان اضحیہ کا اعتبار کررہے ہیں۔
چاہے من علیہ الاضحیہ کے حق میں وقت نہ رہا ہو۔ یہ
عجیب بات ہے۔
کیونکہ جب
وقت کی آمد سے نفس وجوب کا تحقق مان رہے ہیں تو وقت کے گذر جانے سے
قطعاً نفس وجوب بھی زائل ہوجائیگا۔ اس لئے ابتداء میں اگر
من علیہ الاضحیہ کا اعتبار کرتے ہیں تو اختتام میں بھی
اسی کااعتبار ضروری ہے اوراگرانتہاء میں مکان اضحیہ کا
اعتبار اس لئے کررہے ہیں کہ وقت سے نفس وجوب ہوچکا اور نفس وجوب متحقق ہونے
کے بعد باوجود وقت گذرنے کے ختم بھی نہیں ہوا۔ (شاید اسی
وجہ سے مفتی شبیر احمد صاحب نے تیرہویں کو قربانی
کے جواز کا فتوی دے دیا ہے) تو پھر میں پوچھتا ہوں کہ اگر من علیہ
الاضحیہ پر سال گذر گیا اور وہ سال بھر صاحب نصاب رہا جیساکہ
عموماً ہوا کرتا ہے تواب دوسری صبح یوم النحر کی آمد سے نفس
وجوب کا تحقق چہ معنی دارد۔ پس یقین کرلیجئے کہ نفس
وجوب وقت معین سے نہیں ہے۔
پانچواں تخالف: دیکھئے
فتوی میں یہ لکھا ہے کہ ”مالدار پر قربانی دسویں ذی
الحجہ کی صبح صادق سے واجب ہوتی ہے“ اور وقت کو شرعاً سبب وجوب قرار دیاگیا
ہے مگر اس سے یہ سمجھا جارہا ہے کہ غنی پر طلوع صبح نحر سے پہلے نفس
وجوب نہیں ہوتا۔
حالانکہ جب آپ نے
مکلف کو یوم النحر کی آمد سے قبل شرعاً غنی تسلیم کیا
(جیسا کہ لفظ غنی اورمالدار صراحتاً مذکور ہے) تو غنا یعنی
ملک نصاب کی وجہ سے شرعاً اس شخص کا ذمہ مشغول بالواجب تو ہوگیا کیونکہ
غناء ویسار قربانی کے نفس وجوب کی علت ہے جیساکہ وجوب
زکاة میں علت ہے (دیکھئے مقالہ ”نورالسنی لمن یجب علیہ
الاضحیة بالغنی“ دارالعلوم شمارہ شوال وذیقعدہ ۱۴۲۹ھ میں) لہٰذا
اصل وجوب تو ثابت ہوچکا اب وقت کی آمد پر جس وجوب کا تحقق ہوگا وہ اصطلاح
فقہ میں وجوب اداء ہے اس لئے یہ عبارت کہ ”مالدار پر دسویں ذی
الحجہ کی صبح صادق سے قربانی واجب ہوگی۔“ یہ وجوب
ادا کی تعبیر ہے۔
پس فتویٰ
کا یہ لفظ یعنی غنی دلالت کررہا ہے کہ شرعاً نفس وجوب
ہوچکا ہے اور نظریہ اس کے خلاف قائم کیاگیا کہ مالدار پر نفس
وجوب وقت سے پہلے نہیں ہوگا یہ دونوں کیسے صحیح ہوسکتے ہیں۔
لہٰذا وہ تعارض جس کے رفع کی درخواست مفتی اسماعیل صاحب
بھڈکودروی دامت برکاتہم نے اپنے خط میں فرمائی ہے اُس رفع کی
اس کے سوا کوئی صورت نہیں ہے کہ جو فتاوی اصول اور تعامل امت کے
مطابق دئیے گئے ہیں اس کو یعنی المعتبر مکان الاضحیہ
کے ضابطہ علی الاطلاق کو تسلیم کیا جائے اور جو فتاوی یا
تحریر اس کے خلاف واقع ہورہے ہیں اُن سب سے رجوع کیا جائے تاکہ
عام مسلمانوں کی تشویش باقی نہ رہے۔
(۸) اعتبار مکان اضحیہ کا ایک
روشن نمونہ
شروع میں
کہاگیا ہے کہ امت کا تعامل اصول کی روشنی میں چلا آرہا ہے
اس کا ایک بہترین نمونہ بالکل ماضی قریب کا ایک ایسی
شخصیت کے حوالہ سے پیش کیا جاتا ہے جس کے سامنے اہل بصیرت
کے قلوب بھی جھکے ہوئے ہیں اور جس کے گرد علماء ومشائخ کا مجمع رہا
کرتا تھا۔ اس واقعہ میں المعتبر مکان الاضحیہ کا مستحکم عملی
ثبوت جدید موقف کے قائلین کے لئے کحل البصر ہے۔ ملاحظہ ہو۔
تاریخ روانگی:
۱۳/ذی الحجہ ۱۳۹۱ھ ۲۹/جنوری ۱۹۷۲/
از شیخ الحدیث رحمة الله عليه بنام مولانا یوسف
متالا (مدظلہ العالی)
آج ۱۲/ذی الحجہ کو ظہر کے قریب
ڈاک کا انبار پہنچا ... ڈاک کے پلندہ میں میرے موجودہ کاتب مولوی
حبیب اللہ نے پہلے ہی آپ کا نام لے لیا۔ فوراً خط سنا۔
معلوم ہوا کہ ۱۹/جنوری کا چلا ہوا آج ۲۹/ کو یعنی ۱۲/ذی الحجہ کی ظہر کے قریب
پہنچا۔ اُس وقت میں تو گھبراگیا اورمولوی نصیرالدین
صاحب نے نہایت اطمینان سے جواب دیدیا کہ اب تو وقت نہیں
رہا تاہم انھوں نے میری پریشانی دیکھ کر متعدد
دوستوں کو جانوروں کی تلاش میں بھیجوایا۔ میری
تو ظہر کے بعد کی نیند اُڑگئی۔
دو گھنٹے کے بعد
معلوم ہوا کہ دیہات کے لوگ جو اپنے جانور اِدھر اُدھر سے لاتے ہیں وہ ۱۲/ذی الحجہ کے دس گیارہ
بجے سے واپس ہونا شروع ہوجاتے ہیں اس لئے کہ دیہات والوں کے لئے شہروں
میں جانوروں کا رکھنا بھی مشکل ہوتا ہے اور یہاں کے گھاس وغیرہ
کا خرچ بھی زیادہ ہوجاتا ہے۔
میں نے
دوبارہ زور باندھے کہ شیخ انعام اللہ صاحب کو اللہ تعالیٰ جزائے
خیر دے وہ عصر کے بعد ایک بھینس خریدکر لائے جو گراں بھی
تھی اور لوگوں کی نگاہوں میں زیادہ پسند بھی نہ تھی
مگر چونکہ وقت آخری تھا اس لئے اس کو ذبح فوراً کرایا۔
اللہ کے بندے
قربانی کا معاملہ توایسا لاابالی کا نہیں تھا۔ جن
دوستوں نے میرا یا اپنا حصہ میرے یہاں کرانا چاہا شروع ذی
قعدہ سے ان کے خطوط آنا شروع ہوگئے تھے۔ بعض دوستوں کے اصرار پر بہت عمدہ
بکرے بھی میں نے ذی قعدہ میں خرید کر ان ہی
کے پاس چھوڑ دئیے تھے۔ تقسیم سے پہلے تو میرا یہ
معمول تھا کہ شعبان یا رمضان میں بقرات خرید کر سرساوہ، شیخ
پورہ، وغیرہ کے احباب ہی کے ذریعہ سے خریدتا تھا اور ان ہی
کے یہاں چھوڑ دیتا تھا کہ ۹/ذی
الحجہ کو پہنچادیں۔ مگر بعض مجبوریوں کی وجہ سے (اب اس کا
معمول) نہیں رہا پھر بھی اخیر ذی قعدہ ورنہ زائد سے زائد
شروع ذی الحجہ میں خریدوالیتا ہوں کہ اطمینان سے
اچھا جانور اچھے نرخ میں مل جاتا ہے۔ تمہارا یہ جانور گراں تو
بہت ملا۔ مگر اللہ کا احسان کہ قربانی وقت پر ہوگئی۔ یہ
بھی تمہارے اخلاص کی برکت ہے۔ اگر مولوی حبیب اللہ
تمہارا نام نہ لیتے تو یہ خط سننے کی نوبت بھی نہ آتی
اور بقیہ ڈاک کے ساتھ کل ۱۳/ذی
الحجہ کو سنتا۔ صرف تمہارے رفع انتظار کے لئے لکھواتا ہوں کہ قربانی
ادا ہوگئی۔ اللہ کا شکر ہے۔
مفتی اسماعیل
کچھولوی رمضان کی قضا میں شروع ذی الحجہ سے پہلے سے آئے
ہوئے ہیں۔ ان ہی کے متبرک ہاتھوں نے آپ کی قربانی
کو ذبح کیا۔ فقط والسلام
(حضرت شیخ
الحدیث)
بقلم حبیب اللہ چمپارنی شب ۱۳/ذی الحجہ (محبت نامے/ص۲۵۷/۲)
***
------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 11 ، جلد: 94 ذيقعده – ذى الحجة 1431 ھ مطابق نومبر 2010 ء